Rashid Minhas Shaheed.

August 26, 2018

راشد منہاس شہید
٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ایک زیرِ تربیت پائلٹ تھا دن کے گیارہ بجےگیارہ بج کر چھبیس منٹ پر پاک فضائیہ کے مسرور بیس کیمپ کے ون پر پر وہ اپنے ٹرینر جیٹ میں داخل ہوا اور اس کے آلات چیک کیے، آلات چیک کرنے کے بعد اس نے سیٹ پر بیٹھ کر کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا۔
گیارہ بج کر ستائیس منٹ پر کنٹرول ٹاور نے اس نوجوان کو پرواز کے لیے کلیئرنس دے دی اس نے طیارے کو رن وے پر دوڑانا شروع کیاطیارے نے تھوڑی دور جا کر رخ تبدیل کیا اور پرواز کے لیے تیاری پکڑتے ہوئے رفتار تیز کی کہ اچانک اس نوجوان کو طیارہ روکنا پڑا اس نے حیرت سے اپنے انسٹرکٹر کو دیکھا جس نےاپنی اوپل کار طیارے کے پاس لا کرروکی اور نوجوان پائلٹ کو خطرے کا سگنل دیا
شاید میرے طیارے میں کوئی خرابی ہے جس کی وجہ سے میرے انسٹرکٹر نے مجھے خطرے کا سگنل دیا ہے۔۔نوجوان نے سوچا۔ آنے والے خطرے سے بے خبر اس نوجوان نے گیس ماسک منہ سے ہٹایا اور اپنے انسٹرکٹر سے پوچھا
سر! کیا بات ہے مجھے کیوں روکا گیا؟
جواب میں انسٹرکٹر نے عجیب نظروں سے نوجوان کو دیکھا مگر کہا ایک لفظ نہیں
پھر اس نے کاک پٹ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا
سر! نوجوان نے احتجاج کیا لیکن اس وقت تک انسٹرکٹر زبردستی طیارے میں داخل ہو چکا تھا
سر! اب نوجوان کو بھی غصہ آ گیا! پلان کے مطابق آپ کو میری اس پرواز میں شمولیت کی اجازت حاصل نہیں۔۔ لیکن اس وقت تک انسٹرکٹر نے پچھلی نشت پر قبضہ جما کر کنڑول پینل پر قبضہ جما لیا۔
پائلٹ آفیسر اور بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اسی وقت جب اس نے وائرلیس پر اپنے دو ساتھیوں سے بات کرتے سنا تو نوجوان حیرت سے سن رہ گیا:
میں جودھ پور جا رہا ہوں تم میرے گھر والوں کو ساتھ لے کر فوراً بھارتی ہائی کمیشن چلے جاو اور وہاں پناہ لے لو۔اوور
ٹرینر پوری طرح غداری پر آمادہ تھا
جیسے ہی ٹرینر کی یہ بات ختم ہوئی نواجوان کو جیسے ایک ہوش سا آ گیا
اس کا ملک غداروں کے ایک حربے کا شکار ہونے جا رہا تھا
نوجوان نے فوراً ماڑی پور کے کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا اور کہا
مجھے اغواء کیا جا رہا ہے
جس وقت نوجوان نے ماڑی پور کنٹرول ٹاور کو یہ پیغام دیا اس وقت گھڑی کی سوئیاں
گیارہ بج کر انتیس منٹ انتیس سیکنڈ کا وقت بتا رہیں تھیں
اسی وقت انسٹرکٹر نے رومال پر کلورو فام چھڑکا اور نوجوان کو بے ہوش کرنے کے لیے اس پر پل پڑا
اسی وقت کنٹرول ٹاور انتظامیہ نوجوان کا لہجہ سن کر سمجھ چکی تھی کہ نوجوان جسمانی طور پر کسی سے نبرد آزما ہے اور مخالف کے حملے سے بچنے کی کوشش میں ہے
آفیسر پرواز منسوخ کر دو طیارہ اغوا نہ ہونے دیا جائے۔۔کنٹرول ٹاور سے جواب آیا
مگر تب تک غدار انسٹرکٹر نوجوان پر قابو پا کر اسے نیم بے ہوش کر چکا تھا اور طیارہ
مکمل طور پر اس کے قبضے میں تھا
گیارہ بج کراکتیس منٹ پر اس نے طیارہ فضا میں بلند کیا
طیارے بیس ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے مشرق کی جانب بھارت کو رواں دواں تھا
اس غدار انسٹرکٹر کا بچ نکلنا پاکستان کو تاریخ کے ایک عظیم سانحے سے دوچار کر سکتا تھا کیوں کہ وہ غدار انسٹرکٹر اس طیارے کے ساتھ ساتھ کچھ اہم فوجی دستاویزات بھارت لے کر جا رہا تھا جو اگربھارت کے ہاتھ لگ جاتیں تو ہمارا ملک ایک عظیم سانحے سے دوچار ہو جاتا
اگر وہ دستاویزات اس سے چھین کر ضائع بھی کر دی جاتیں اور وہ غدار بچ کر نکل جاتا تو بھی کم نقصان نہ ہوتا کیوں کہ بھارت میں اس غدار کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک لفظ ہمارے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا
پائلٹ آفیسر نیم بے ہوشی کی حالت میں کنٹرول ٹاور سے نشر ہونے والا پیغام سن رہا تھا جس میں بار بار پرواز کو منسوخ کرنے کی ہدایت دی جارہی تھی اس نوجوان کو کنٹرول ٹاور کی بے چینی سے اس معاملے کی پوری شدت کا اندازہ ہو گیا اور احساس ہو گیا کہ اگر آج یہ غدار بچ گیا تو شاید ہمارا ملک نہ بچے
اس نوجوان نے اپنے حوش سنبھالنے کی پوری کوشش کیا ور بڑی مشکل سے کنٹرول ٹاور پر پیغام دیا کہ
مجھے اغوا کیا جا رہا ہے میں اپنے انسٹرکٹر سے دست و گریبان ہوں
یہ پیغام کنٹرول ٹاور پر
گیارہ بج کر تینتیس منٹ پر نشر ہوا
انسٹرکٹر سادہ کپڑوں میں تھا اس کی پوری کوشش تھی کہ طیارہ زیادہ بلندی تک نہ جا سکے کیوں کہ پرواز کے مخصوص لباس کے بغیر اگر وہ بلندی تک جاتا تو آکسیجن کی کمی کے باعث ا سکی موت واقع ہو سکتی تھی لہذا وہ غدار طیارے کو محض تیس یا چالیس فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا رہا تا کہ اسے آکسیجن کی کمی بھی نہ ہو اور طیارہ راڈار پر نہ آئے
اتنی نیچی پرواز کرنا ایک مہارت کا کام تھا اس غدار نے اپنی فنی مہارت تو دکھائی ہی ساتھ ساتھ جسمانی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوجوان کو بے بس کر دیا
مجھے اغواء کیا جا رہا ہے مگر میں یہ کام نہیں ہونے دوں گا
گیارہ بج کر تینتیس منٹ اور تینتیس سیکنڈذ پر پائیلٹ آفیسر کی بہت مدہم آواز
کنٹرول ٹاور کو سنائی دی
یہ اس کا آخری پیغام تھا اس کے بعد اس کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے ختم ہو گیا
پاک فضائیہ کی طیارے اس ٹرینر طیارے کو تین گھنٹے تلاش کرتے رہے مگر اس کا کچھ پتا نہ چلا
پتا چلتا بھی کیسے ۔۔اس پیغام کو نشر کرنے بعد نوجوان نے ایک طویل سانس لی
اللہ کو یاد کیا اور اپنے وطن پر ایک آخری نگاہ ڈالی جھپٹ کر طیارے کا رخ زمین کی طرف کر دیا اور طیارہ جو پہلے ہی زمین کے قریب تھا کچھ ہی لمحات میں زمین جا ٹکرایا
غدار انسٹرکٹرشاید یہ دیکھ کر پاگل ہو گیا ہو گا اس نے آفیسر کی جان لینے کی کوشش بھی کی ہو گی لیکن طیارہ زمین پر ٹکرانے سے پہلے اس نے اس خوبصورت اور دلیر نوجوان کے چہرے پر جو آسودہ مسکراہٹ دیکھی ہو گی اس مسکراہٹ نے اسے سن کر دیا ہو گا
وہ مرتے دم تک اس مسکراہٹ کا مطلب نہ سمجھا ہو گا
سمجھتا بھی کیسے ۔؟ وہ ایک غدار تھا اور مسکراہٹ ایک شہید کی تھی ۔۔۔مسکراہٹ سمجھتا بھی کیسے وہ اپنے وطن کو بیچنے چلا تھا،،،اور وہ مسکراہٹ ایک ایسے کم عمر نو جوان
کی تھی جس نے ابھی زندگی کی اصل بہاریں نہ دیکھیں تھیں لیکن ملک پر قربان ہو گیا
اسی وقت طیارے زمین سے ٹکٹرا کر پاش پاش ہو گیا اور اس نوجوان کی روح ایک قدم آگے بڑھا کر اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہو گئی
اور اس غدار مطیع الرحمن کو جہنم کے شعلوں نے لپیٹ لیا
راشد منہاس شہید, سترہ فروری انیس سو اکیاون رات کے نوبجے کراچی فضائیہ کے ایک ہاسپٹل میں پیدا ہوئے ان کا تعلق ایک راجپوت گھرانے سے تھا۔ میں آپ کو یہاں ان کی بائیو گرافی نہیں بتاوں گا۔
انٹرنیٹ پر ہزاروں ویب سائیٹوں سے آپ کو ان کی زندگی کے بارے پتا چل جائے گا۔۔آخر ایک شیر کی زندگی جیےاور ایک شہید بن کر اس دنیا سے گئے کون بھول سکتا ہے انھیں
یہاں آپ کی توجہ ایک نہایت اہم پیغام کی طرف دلاوں گا جو آپ کو انٹرنیٹ پر کہیں سے نہیں ملے گا صرف انٹرنیٹ ہی نہیں پوری دنیا گھوم لیں وہ پیغام کہیں سے نہیں ملے گا اگر ملے تو صرف اپنے دل سے۔۔لیکن اس کے لیے ذرا سا فلیش بیک میں دیکھیں
دو نوجوان دو بھائی عمریں پندرہ یا سولہ سال
ابو جہل کے سینے پر سوار ہیں اور اس ملعون کو جہنم واصل کیا اپنی زندگیاں قربان کر دیں لیکن اسلام کی خاطر پرواہ نہ کی
کیا تھا اگر وہ بھی مطیع الرحمن کی طرح بک جاتا بھارت جانے دیتا طیارہ بھارت یقیناً اس کو سر پر بٹھاتا لیکن نہیں نہیں نہیں۔ امت محمدیہ کے مسلمانوں کی یہ شان نہیں گردن کٹ سکتی ہے جھک نہیں سکتی
لیکن یہ باتیں بھی اب کتابوں رہ گئیں۔ ان تین مثالوں کے چار نوجوانوں سے ہم نے سبق نہ لیا، کہ سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا ہے اور ان کی رضا اسی چیز میں ہے کہ دین اسلام کی خاطر کٹ گرو لیکن اس پر آنچ نہ آنے دو۔ آج ہم کس سے شکوہ کریں ہم کیوں غیروں میں مطیع الرحمن کو ڈھونڈیں، ہمارے اندر ہی مطیع الرحمن جیسے غدار چھپے ہیں
آج بیس اگست ہے اس نوجوان کا جسے دنیا راشد منہاس رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے
جانتی ہے۔
آئیں اس دن عہد کرتے ہیں کچھ بھی ہو جائے دین اسلام اور اس ملک پر اٹھنے والا ہر وار اپنے جسم پر لیں گے ان شاء اللہ تا کہ راشد منہاس کی طرح ہماری روح بھی جسم سے نکلتے ہی اپنے رب کے آگے سر بسجود ہو جائے۔
اللہ پاک راشد منہاس شہید کے درجات بلند فرمائے
اور جنت میں انھیں غزوہ بدر غزدہ احد کے شہدا کا ساتھ نصیب فرمائے آمین

You Might Also Like

0 comments

Thanks so much for the kind comments. Seriously, it's really nice to hear this stuff.