Wish , Hope ,Dream
August 26, 2018
نفس اور خواہشات ؟
لفظ نفس بذات خود ایک مادہ ہے اور اس کا بنیادی معنی ہے ایسی چیز جو متذبذب یا ڈاوں ڈول ہو یعنی کبھی ایک طرف جھکے تو کبھی دوسری طرف اس کا میلان ہو۔
اللہ تعالی نے جب انسان کو نفس عطا کیا تو اس کے متعلق اسے کچھ معلومات دیں،
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّىٰهَا
اور نفس کی (قسم) اور اس کی جس نے اس کو پیدا کیا
91-Ash-Shams : 7
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَىٰهَا
پھر اس نفس کو اس کی برائی اور اچھائی الھام کر دی
91-Ash-Shams : 8
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّىٰهَا
جس نے اس کا تزکیہ کیا وہ فلاح پاگیا
91-Ash-Shams : 9
وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّىٰهَا
اور جس نے اسے آلودہ کیا وہ برباد ہوگیا
91-Ash-Shams : 10
ان آیات سے واضح ہوا کہ انسان نے جس چیز کی سب سے زیادہ حفاظت کرنی ہے وہ اس کا نفس ہے۔ اگر نفس پاکیزہ ہو تو انسان باکردار اور اگر نفس آلودہ ہو تو انسان بدکردار ہوتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو انسان ہر لمحے ایک دوراہے پر ہوتا ہے اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں، ایک سیدھا اور ایک ٹیڑھا۔ اب ان دو راستوں میں کس راستے کو اپنانا ہے یہ فیصلہ نفس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی نفس کبھی اچھائی کی طرف راغب ہوتا ہے اور کبھی برائی کی طرف لپکتا ہے۔
ارشاد ربانی ہے
فَأَمَّا مَن طَغَىٰ
تو جس نے سرکشی کی
79-An-Naziat : 37
وَءَاثَرَ ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا
اور دنیا کی زندگی سے متاثر ہوا
79-An-Naziat : 38
فَإِنَّ ٱلْجَحِيمَ هِىَ ٱلْمَأْوَىٰ
اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے
79-An-Naziat : 39
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ وَنَهَى ٱلنَّفْسَ عَنِ ٱلْهَوَىٰ
اور جو اپنے رب کے سامنے پیش ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو (برے)خواہشات سے روکتا رہا
79-An-Naziat : 40
فَإِنَّ ٱلْجَنَّةَ هِىَ ٱلْمَأْوَىٰ
اس کا ٹھکانہ جنت ہے
79-An-Naziat : 41
ان آیات سے پتہ چلا کہ جو شخص اپنی روزمرہ زندگی میں ناجائز خواہشات سے بچتا ہے تو مرتے وقت اس کے نفس کو نفس مطمنہ کہہ کر جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔
يَٰٓأَيَّتُهَا ٱلنَّفْسُ ٱلْمُطْمَئِنَّةُ
اے مطمن نفس!
89-Al-Fajr : 27
ٱرْجِعِىٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً
اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی
89-Al-Fajr : 28
فَٱدْخُلِى فِى عِبَٰدِى
تو میرے (ممتاز) بندوں میں داخل ہو جا
89-Al-Fajr : 29
وَٱدْخُلِى جَنَّتِى
اور میری جنت میں داخل ہو جا
89-Al-Fajr : 30
پس یہ نفس ہی ہے جو ہر وقت بندے پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس پر برائی امر کرتا رہتا ہے۔
ۚ إِنَّ ٱلنَّفْسَ لَأَمَّارَةٌۢ بِٱلسُّوٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىٓ ۚ إِنَّ رَبِّى غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(یوسف نے کہا ) بےشک نفس (انسان پر) برائی امر کرتا رہتا ہے سوائے اس کے جس پر میرے رب کی رحمت ہو بےشک میرا رب غفورورحیم ہے۔
12-Yusuf : 53
انسان کیلئے سب سے خطرناک دشمن اس کا اپنا نفس ہے۔یہ اتنا خطرناک ہے کہ یہ خدا کے مقابلے میں آجاتا ہے اور بندے کو حکم دیتا رہتا ہے حالانکہ حکم دینے کا اِختیار صرف اللہ کو ہے، یہی وجہ ہے کہ نفس کے پیچھے چلنے کو شرک کہا گیا ہے کیونکہ یہ الَه بن کر آپ کو حکم دیتا ہے۔
أَرَءَيْتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَٰهَهُۥ هَوَىٰهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا
کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے خواہش نفس کو الہ بنا رکھا ہے تو کیا تم اس کی وکالت کرو گے؟
25-Al-Furqan : 43
اللہ تعالی اپنے رسول (ص) کو خبردار کر رہے ہیں کہ ایسے شخص سے دور رہو جس نے اپنے نفس کو الہ بنا رکھا ہے، آپ ایسے نفس کے غلام کی وکالت کیسے کر سکتے ہیں ؟
قرآن کریم نے تمام انسانوں کو الڑٹ جاری کر رکھا ہے کہ اپنے نفس سے بچ کر رہنا اس کے اندر لالچ، تنگی اور خود غرضی رکھی گئ ہے۔
احضرت الانفس شح۔۔۔۔ النساء 128
ہر نفس کے اندر خودغرضی حاضر کی گئ ہے۔
پھر فرمایا
ومن یوق شح نفسہ فاولیک ھم المفلحون
اور جو اپنے نفس کی تنگی اور خود غرضی سے بچ گیا وہ فلاح پاگیا۔
دوستو اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے نفس کے شر سے محفوظ رکھے اور اس شیطان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
لفظ نفس بذات خود ایک مادہ ہے اور اس کا بنیادی معنی ہے ایسی چیز جو متذبذب یا ڈاوں ڈول ہو یعنی کبھی ایک طرف جھکے تو کبھی دوسری طرف اس کا میلان ہو۔
اللہ تعالی نے جب انسان کو نفس عطا کیا تو اس کے متعلق اسے کچھ معلومات دیں،
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّىٰهَا
اور نفس کی (قسم) اور اس کی جس نے اس کو پیدا کیا
91-Ash-Shams : 7
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَىٰهَا
پھر اس نفس کو اس کی برائی اور اچھائی الھام کر دی
91-Ash-Shams : 8
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّىٰهَا
جس نے اس کا تزکیہ کیا وہ فلاح پاگیا
91-Ash-Shams : 9
وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّىٰهَا
اور جس نے اسے آلودہ کیا وہ برباد ہوگیا
91-Ash-Shams : 10
ان آیات سے واضح ہوا کہ انسان نے جس چیز کی سب سے زیادہ حفاظت کرنی ہے وہ اس کا نفس ہے۔ اگر نفس پاکیزہ ہو تو انسان باکردار اور اگر نفس آلودہ ہو تو انسان بدکردار ہوتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو انسان ہر لمحے ایک دوراہے پر ہوتا ہے اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں، ایک سیدھا اور ایک ٹیڑھا۔ اب ان دو راستوں میں کس راستے کو اپنانا ہے یہ فیصلہ نفس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی نفس کبھی اچھائی کی طرف راغب ہوتا ہے اور کبھی برائی کی طرف لپکتا ہے۔
ارشاد ربانی ہے
فَأَمَّا مَن طَغَىٰ
تو جس نے سرکشی کی
79-An-Naziat : 37
وَءَاثَرَ ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا
اور دنیا کی زندگی سے متاثر ہوا
79-An-Naziat : 38
فَإِنَّ ٱلْجَحِيمَ هِىَ ٱلْمَأْوَىٰ
اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے
79-An-Naziat : 39
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ وَنَهَى ٱلنَّفْسَ عَنِ ٱلْهَوَىٰ
اور جو اپنے رب کے سامنے پیش ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو (برے)خواہشات سے روکتا رہا
79-An-Naziat : 40
فَإِنَّ ٱلْجَنَّةَ هِىَ ٱلْمَأْوَىٰ
اس کا ٹھکانہ جنت ہے
79-An-Naziat : 41
ان آیات سے پتہ چلا کہ جو شخص اپنی روزمرہ زندگی میں ناجائز خواہشات سے بچتا ہے تو مرتے وقت اس کے نفس کو نفس مطمنہ کہہ کر جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔
يَٰٓأَيَّتُهَا ٱلنَّفْسُ ٱلْمُطْمَئِنَّةُ
اے مطمن نفس!
89-Al-Fajr : 27
ٱرْجِعِىٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً
اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی
89-Al-Fajr : 28
فَٱدْخُلِى فِى عِبَٰدِى
تو میرے (ممتاز) بندوں میں داخل ہو جا
89-Al-Fajr : 29
وَٱدْخُلِى جَنَّتِى
اور میری جنت میں داخل ہو جا
89-Al-Fajr : 30
پس یہ نفس ہی ہے جو ہر وقت بندے پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس پر برائی امر کرتا رہتا ہے۔
ۚ إِنَّ ٱلنَّفْسَ لَأَمَّارَةٌۢ بِٱلسُّوٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىٓ ۚ إِنَّ رَبِّى غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(یوسف نے کہا ) بےشک نفس (انسان پر) برائی امر کرتا رہتا ہے سوائے اس کے جس پر میرے رب کی رحمت ہو بےشک میرا رب غفورورحیم ہے۔
12-Yusuf : 53
انسان کیلئے سب سے خطرناک دشمن اس کا اپنا نفس ہے۔یہ اتنا خطرناک ہے کہ یہ خدا کے مقابلے میں آجاتا ہے اور بندے کو حکم دیتا رہتا ہے حالانکہ حکم دینے کا اِختیار صرف اللہ کو ہے، یہی وجہ ہے کہ نفس کے پیچھے چلنے کو شرک کہا گیا ہے کیونکہ یہ الَه بن کر آپ کو حکم دیتا ہے۔
أَرَءَيْتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَٰهَهُۥ هَوَىٰهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا
کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے خواہش نفس کو الہ بنا رکھا ہے تو کیا تم اس کی وکالت کرو گے؟
25-Al-Furqan : 43
اللہ تعالی اپنے رسول (ص) کو خبردار کر رہے ہیں کہ ایسے شخص سے دور رہو جس نے اپنے نفس کو الہ بنا رکھا ہے، آپ ایسے نفس کے غلام کی وکالت کیسے کر سکتے ہیں ؟
قرآن کریم نے تمام انسانوں کو الڑٹ جاری کر رکھا ہے کہ اپنے نفس سے بچ کر رہنا اس کے اندر لالچ، تنگی اور خود غرضی رکھی گئ ہے۔
احضرت الانفس شح۔۔۔۔ النساء 128
ہر نفس کے اندر خودغرضی حاضر کی گئ ہے۔
پھر فرمایا
ومن یوق شح نفسہ فاولیک ھم المفلحون
اور جو اپنے نفس کی تنگی اور خود غرضی سے بچ گیا وہ فلاح پاگیا۔
دوستو اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے نفس کے شر سے محفوظ رکھے اور اس شیطان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
0 comments
Thanks so much for the kind comments. Seriously, it's really nice to hear this stuff.