Joaquin Phoenix
Biography
Born | in San Juan, Puerto Rico |
Birth Name | Joaquin Rafael Bottom |
Nicknames | KittenJoaqLeaf |
Height | 5' 8" (1.73 m) |
Todd Phillips, the director of the upcoming Joker origin film, posted a camera test of Joaquin Phoenix Friday on Instagram. Phoenix plays the infamous villain in the currently untitled movie, which is slated to hit theaters on Oct. 4, 2019.
In the video, Phoenix appears as “Arthur,” until his face is interspersed with images of him as the Joker. The camera gradually pulls in closer and we only see him as the grinning villain, with his signature white face and red lips. The video, set to “Laughing” by the Canadian band The Guess Who, ends when his expression suddenly falls.
Phillips posted a photo on Sunday of Phoenix dressed up in a button-up shirt and jacket, with the caption: “Arthur.” This is likely the Joker’s name before he adopts his current moniker.
In the UK, the March cinema schedule gave us a particularly disconcerting Phoenix double-whammy. One week, he was a taciturn, tortured assassin exacting grievous violence on toxic men in Lynne Ramsay’s brutal stunner You Were Never Really Here. The next, he was literally Jesus Christ – still taciturn, definitely still tortured, but ostensibly a more benevolent presence – in Garth Davis’s prettily soporific religious drama Mary Magdalene. (Or, as atheistic wags might also call it, You Were Never Really Here.) The performances may have had more in common than they would in the hands of most other actors – you’ve never seen the son of God quite this blearily emo – but the ideological whiplash between the projects was still striking. (With Mary Magdalene still mired in Weinstein Company legal quicksand, Americans will find this out when, if ever, it gets released.)
سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تو ایتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اُن کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا جہنم رسید ہوا، یونان کی اشرافیہ جیت گئی، سقراط کی دانش ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔
اسکاٹ لینڈ کی جنگ آزادی لڑنے والے دلاور ولیم والس کو جب انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ اوّل نے گرفتار کیا تو اُس پر غداری کا مقدمہ قائم کیا، اسے برہنہ کرکے گھوڑوں کے سموں کے ساتھ باندھ کر لندن کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور پھر ناقابل بیان تشدد کے بعد اُسے پھانسی دے کر لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ اُس وقت کا بادشاہ جیت گیا، ولیم والس ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔
گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو یہ کیتھولک عقائد کی خلاف ورزی تھی، چرچ نے گلیلیو پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اسے غیرمعینہ مدت تک کے لئے قید کی سزا سنا دی، یہ سزا 1633میں سنائی گئی، گلیلیو اپنے گھر میں ہی قید رہا اور 1642 میں وہیں اُس کی وفات ہوئی، پادری جیت گئے سائنس ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔
جیورڈانو برونو پر بھی چرچ کے عقائد سے انحراف کرنے کا مقدمہ بنا یاگیا، برونو نے اپنے دفاع میں کہا کہ اس کی تحقیق عیسائیت کے عقیدہ خدا اور اُس کی تخلیق سے متصادم نہیں مگر اُس کی بات نہیں سنی گئی اور اسے اپنے نظریات سے مکمل طور پر تائب ہونے کے لئے کہا گیا، برونو نے انکار کر دیا، پوپ نے برونو کو کافر قرار دے دیا، 8فروری1600کو جب اسے فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا تو برونو نے تاریخی جملہ کہا ’’میں یہ فیصلہ سنتے ہوئے اتنا خوفزدہ نہیں ہوں جتنا تم یہ فیصلہ سناتے ہوئے خوفزدہ ہو۔‘‘برونو کی زبان کاٹ دی گئی اور اسے زندہ جلا دیا گیا۔ پوپ جیت گیا، برونو ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔
حجاج بن یوسف جب خانہ کعبہ پر آگ کے گولے پھینک رہا تھا تو اُس وقت ابن زبیرؓ نے جوانمردی کی تاریخ رقم کی، انہیں مسلسل ہتھیار پھینکنے کے پیغامات موصول ہوئے مگر آپ ؓ نے انکار کردیا، اپنی والدہ حضرت اسماؓ سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا کہ اہل حق اس بات کی فکر نہیں کیا کرتے کہ ان کے پاس کتنے مددگار اور ساتھی ہیں، جاؤ تنہا لڑو اور اطاعت کا تصور بھی ذہن میں نہ لانا، ابن زبیر ؓ نے سفاک حجاج بن یوسف کا مقابلہ کیا اور شہادت نوش فرمائی، حجاج نے آپؓ کا سر کاٹ کر خلیفہ عبد المالک کو بھجوا دیا اور لاش لٹکا دی، خود حضرت اسماؓ کے پاس پہنچا اور کہا تم نے بیٹے کا انجام دیکھ لیا، آپؓ نے جواب دیا ہاں تو نے اس کی دنیا خراب کر دی اور اُس نے تیری عقبیٰ بگاڑ دی۔ حجاج جیت گیا، ابن زبیر ؓ ہار گئے۔ وقت گزر گیا۔
ابو جعفر منصور نے کئی مرتبہ امام ابو حنیفہ ؒکو قاضی القضاۃ بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا، ایک موقع پر دونوں کے درمیان تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ منصور کھلم کھلا ظلم کرنے پر اتر آیا، اُس نے انہیں بغداد میں دیواریں بنانے کے کام کی نگرانی اور اینٹیں گننے پر مامور کر دیا، مقصد اُن کی ہتک کرنا تھا، بعد ازاں منصور نے امام ابوحنیفہ کو کوڑے مارے اور اذیت ناک قید میں رکھا، بالآخر قید میں ہی انہیں زہر دے کر مروا دیا گیا، سجدے کی حالت میں آپ کا انتقال ہوا، نماز جنازہ میں مجمع کا حال یہ تھا کہ پچاس ہزار لوگ امڈ آئے، چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ منصور جیت گیا، امام ابو حنیفہ ہار گئے۔ وقت گزر گیا۔
تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا، یونان کی اشرافیہ سقراط سے زیادہ طاقتور تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ سقراط کا سچ زیادہ طاقتور تھا۔ ولیم والس کی دردناک موت کے بعد اس کا نام لیوا بھی نہیں ہونا چاہئے تھا مگر آج ابیرڈین سے لے کر ایڈنبرا تک ولیم والس کے مجسمے اور یادگاریں ہیں، تاریخ میں ولیم والس امر ہو چکا ہے۔ گلیلیو پر کفر کے فتوے لگانے والی چرچ اپنے تمام فتوے واپس لے چکی ہے، رومن کیتھولک چرچ نے ساڑھے تین سو سال بعد تسلیم کیا کہ گلیلیو درست تھا اور اُس وقت کے پادری غلط۔ برونو کو زندہ جلانے والے بھی آج یہ بات مانتے ہیں کہ برونو کا علم اور نظریہ درست تھا اور اسے اذیت ناک موت دینے والے تاریخ کے غلط دوراہے پر کھڑے تھے۔
تاریخ میں حجاج بن یوسف کو آج ایک ظالم اور جابر حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس کی گردن پر ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون ہے جبکہ حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ شجاعت اور دلیری کا استعارہ ہیں، حجاج کو شکست ہو چکی ہے ابن زبیرؓ فاتح ہیں۔ جس ابو جعفر منصور نے امام ابوحنیفہ کو قید میں زہر دے کر مروایا اس کے مرنے کے بعد ایک جیسی سو قبریں کھو دی گئیں اور کسی ایک قبر میں اسے دفن کر دیا گیا تاکہ لوگوں کو یہ پتہ نہ چل سکے کہ وہ کس قبر میں دفن ہے، یہ اہتمام اس خوف کی وجہ سے کیا گیا کہ کہیں لوگ اُس کی قبر کی بے حرمتی نہ کریں، گویا تاریخ کا فیصلہ بہت جلد آگیا۔
آج سے ایک سو سال بعد ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا، تاریخ ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائے، آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ہم میں سے کون تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہے اور کون تاریخ کے غلط دوراہے پر ہے. کون حق کا ساتھی ہے اور کون باطل کے ساتھ کندھا ملائے ہوئے ہے، کون سچائی کا علمبردار ہے اور کون جھوٹ کی ترویج کر رہا ہے، کون دیانت دار ہے اور کون بے ایمان، کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔ ہم میں سے ہر کوئی خود کو حق سچ کا راہی کہتا ہے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بات دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، کیونکہ اگر ہر شخص نے حق کا علم تھام لیا ہے تو پھر اس دھرتی سے ظلم اور ناانصافی کو اپنے آپ ختم ہو جانا چاہئے لیکن سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم اُس منزل سے کہیں دور بھٹک رہے ہیں۔ ا
ٓج سے سو برس بعد البتہ جب کوئی مورخ ہمارا احوال لکھے گا تو وہ ایک ہی کسوٹی پر ہم سب کو پرکھے گا، مگر افسوس کہ اُس وقت تاریخ کا بے رحم فیصلہ سننے کے لئے ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا۔ سو آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں کیوں نہ خود کو ہم ایک بے رحم کسوٹی پر پرکھ لیں اور دیکھ لیں کہ کہیں ہم یونانی اشرافیہ کے ساتھ تو نہیں کھڑے جنہوں نے سقراط کو زہر کا پیالہ تھما دیا تھا، کہیں ہم برونو کو زندہ جلانے والے پادریوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم حجاج کی طرح ظالموں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم امام ابوحنیفہ اور امام مالک پر کوڑے برسانے والوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم ابن رشد کے خلاف فتویٰ دینے والوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے….. کہیں ہم تاریخ کی غلط سمت میں تو نہیں کھڑے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرکے خود کو غلطی پر تسلیم کرنا بڑے ظرف کا کام ہے جس کی آج کل شدید کمی ہے۔ وقت تو گزر ہی جاتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی باضمیر نے وہ وقت کیسے گزارا!
وتر کسے کہتے ہیں ۔۔۔۔ ؟؟؟
اصل میں یہ ایک ہی ہوتا ہے ۔۔۔ واحد اکیلا
ہم حنفی ان کو دو کے ساتھ ملا کر تین کر لیتے ہیں ۔۔۔ اور حنبلی ایک اکیلا ہی پڑھتے ہیں ۔
جانتے ہو وتر میں ہم ہر روز الله سے ایک وعدہ کرتے ہیں ۔
اور وہ وعدہ بھی عبادت کی سب سے آخری ایک رکعت میں ہوتا ہے ۔
دعائے قنوت ایک عہد ہے الله سبحانہ و تعالی کے ساتھ ۔۔۔۔ ایک معاھدہ ہے ۔۔ ایک وعدہ ہے ۔
الّٰلھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ ۔۔۔۔ اے الله ! ہم صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔
وَنَسْتَغْفِرُکَ ۔۔۔۔۔ اور تیری مغفرت طلب کرتے ہیں ۔
وَنُؤْمِنُ بِکَ ۔۔۔۔ اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں ۔
وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ ۔۔۔۔۔۔ اور تجھ پر ہی توکل کرتے ہیں ۔
وَنُثْنِیْ اِلَیْکَ الْخَیْر ۔۔۔۔ اور تیری اچھی تعریف کرتے ہیں ۔
وَنَشْکُرُکَ ۔۔۔۔ اور ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں ۔
ولا نَکْفُرُکَ ۔۔۔۔ اور ہم تیرا انکار نہیں کرتے ۔
وَنَخْلَعُ ۔۔۔ اور ہم الگ کرتے ہیں ۔
وَنَتْرُکَ مَنْ یّفْجُرُکَ ۔۔۔۔ اور ہم چھوڑ دیتے ہیں اس کو جو تیری نا فرمانی کرے ۔
اللھُمَّ ایّاکَ نَعْبُدُ ۔۔۔ اے الله ! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں ۔
وَلَکَ نُصَلّیْ ۔۔۔ اور تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں ۔
وَنَسْجُدُ ۔۔۔۔ اور ہم تجھے سجدہ کرتے ہیں ۔
وَاِلَیْکَ نَسْعٰی ۔۔۔ اور ہم تیری طرف دوڑ کر آتے ہیں ۔
وَنَحْفِدُ ۔۔۔۔۔ اور ہم تیری خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔
وَ نَرْجُوا رَحْمَتَکَ ۔۔ اور ہم تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں ۔
وَنَخْشٰی عَذَابَکَ ۔۔۔۔ اور ہم تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
انّ عَذَابَک بِالْکُفّارِ مُلْحِقْ۔۔۔۔۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے ۔
کبھی کبھی کچھ باتیں بڑی دیر سے پتہ چلتی ہیں ۔۔۔ یا شاید پتہ تو ہوتی ہیں ۔۔۔ لیکن ان کی اصل سے ان کے راز سے واقف ہونے کا بھی کوئی وقت کوئی لمحہ ہوتا ہے ۔
سارا علم کتابوں میں تو نہیں ہوتا نا ۔۔۔ کچھ دلوں پر اترتا ہے ۔
دل بھی وہ جو الله کے نور اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت سے بھرے ہوں ۔ سادہ سے ۔ ریا سے پاک ۔۔۔۔ جو الله کے حکم کا سنتے ہی کوئی دلیل نہ مانگیں ۔۔۔
بس آمنّا اور صدّقنا کہہ دیں ۔
ارے یہ تو واقعی ہم ہر روز الله سبحانہ وتعالی سے وعدہ کرتے ہیں سونے سے پہلے ۔۔۔ اور کتنے نادان ہیں صبح ہوتے ہی سب کچھ بُھلا دیتے ہیں ۔
کیا ہم حقیقتا جانتے ہیں کہ نماز وتر ۔۔۔ دعائے قنوت الله سبحانہ تعالی سے ایک وعدہ ہے ایک معاھدہ ہے ؟
اور کیا ہم اسے پورا کرتے ہیں ؟
یا پورا کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں ؟
اصل میں یہ ایک ہی ہوتا ہے ۔۔۔ واحد اکیلا
ہم حنفی ان کو دو کے ساتھ ملا کر تین کر لیتے ہیں ۔۔۔ اور حنبلی ایک اکیلا ہی پڑھتے ہیں ۔
جانتے ہو وتر میں ہم ہر روز الله سے ایک وعدہ کرتے ہیں ۔
اور وہ وعدہ بھی عبادت کی سب سے آخری ایک رکعت میں ہوتا ہے ۔
دعائے قنوت ایک عہد ہے الله سبحانہ و تعالی کے ساتھ ۔۔۔۔ ایک معاھدہ ہے ۔۔ ایک وعدہ ہے ۔
الّٰلھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ ۔۔۔۔ اے الله ! ہم صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔
وَنَسْتَغْفِرُکَ ۔۔۔۔۔ اور تیری مغفرت طلب کرتے ہیں ۔
وَنُؤْمِنُ بِکَ ۔۔۔۔ اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں ۔
وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ ۔۔۔۔۔۔ اور تجھ پر ہی توکل کرتے ہیں ۔
وَنُثْنِیْ اِلَیْکَ الْخَیْر ۔۔۔۔ اور تیری اچھی تعریف کرتے ہیں ۔
وَنَشْکُرُکَ ۔۔۔۔ اور ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں ۔
ولا نَکْفُرُکَ ۔۔۔۔ اور ہم تیرا انکار نہیں کرتے ۔
وَنَخْلَعُ ۔۔۔ اور ہم الگ کرتے ہیں ۔
وَنَتْرُکَ مَنْ یّفْجُرُکَ ۔۔۔۔ اور ہم چھوڑ دیتے ہیں اس کو جو تیری نا فرمانی کرے ۔
اللھُمَّ ایّاکَ نَعْبُدُ ۔۔۔ اے الله ! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں ۔
وَلَکَ نُصَلّیْ ۔۔۔ اور تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں ۔
وَنَسْجُدُ ۔۔۔۔ اور ہم تجھے سجدہ کرتے ہیں ۔
وَاِلَیْکَ نَسْعٰی ۔۔۔ اور ہم تیری طرف دوڑ کر آتے ہیں ۔
وَنَحْفِدُ ۔۔۔۔۔ اور ہم تیری خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔
وَ نَرْجُوا رَحْمَتَکَ ۔۔ اور ہم تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں ۔
وَنَخْشٰی عَذَابَکَ ۔۔۔۔ اور ہم تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
انّ عَذَابَک بِالْکُفّارِ مُلْحِقْ۔۔۔۔۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے ۔
کبھی کبھی کچھ باتیں بڑی دیر سے پتہ چلتی ہیں ۔۔۔ یا شاید پتہ تو ہوتی ہیں ۔۔۔ لیکن ان کی اصل سے ان کے راز سے واقف ہونے کا بھی کوئی وقت کوئی لمحہ ہوتا ہے ۔
سارا علم کتابوں میں تو نہیں ہوتا نا ۔۔۔ کچھ دلوں پر اترتا ہے ۔
دل بھی وہ جو الله کے نور اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت سے بھرے ہوں ۔ سادہ سے ۔ ریا سے پاک ۔۔۔۔ جو الله کے حکم کا سنتے ہی کوئی دلیل نہ مانگیں ۔۔۔
بس آمنّا اور صدّقنا کہہ دیں ۔
ارے یہ تو واقعی ہم ہر روز الله سبحانہ وتعالی سے وعدہ کرتے ہیں سونے سے پہلے ۔۔۔ اور کتنے نادان ہیں صبح ہوتے ہی سب کچھ بُھلا دیتے ہیں ۔
کیا ہم حقیقتا جانتے ہیں کہ نماز وتر ۔۔۔ دعائے قنوت الله سبحانہ تعالی سے ایک وعدہ ہے ایک معاھدہ ہے ؟
اور کیا ہم اسے پورا کرتے ہیں ؟
یا پورا کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں ؟
نوازشریف نے اپنی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی اور اس اپیل کے دائر کرنے سے پہلے کچھ باریک کاریگریاں بھی دکھا دی گئیں تاکہ مرضی کے نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ اس مقصد کیلئے جسٹس اطہر من اللہ پر بہت عرصے سے کام جاری تھا، سب جانتے ہیں کہ وہ عدلیہ تحریک میں افتخار چوہدری کا سپوکس پرسن ہوا کرتا تھا اور براہ راست ن لیگ سے ہدایات لیا کرتا تھا۔ اس کی انہی خدمات کے پیش نظر افتخار چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد اسے اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج بھی بنا دیا۔
نوازشریف کی اپیل کی سماعت کے دوران اطہرمن اللہ کی اب تک جاری کی گئی آبزرویشنز کو سن کر لگتا ہے کہ موصوف نہ تو آئین سے واقف ہیں اور نہ ہی نیب آرڈیننس سے۔ کیونکہ اگر آرڈیننس پڑھا ہوتا تو کبھی مریم نواز کے غیرمتعلقہ ہونے کی آبزرویشن نہ دیتا۔ نیب کے جس آرٹیکل کے تحت نوازشریف فیملی کو سزا ہوئی، اس میں واضح لکھا ہے کہ اس کا اطلاق حکومتی عہدیدار اور اس کے رشتے دار، دونوں پر ہوتا ہے۔ مریم نواز کا نام پانامہ میں آچکا، برٹش ورجن آئی لینڈ کی حکومت نے سرکاری طور پر تصدیق کردی کہ وہ نیلسن اور نیسکول نامی آفشور کمپنیوں کی مالک ہے، مریم نواز خود اپنے آپ کو ان کمپنیوں کی ٹرسٹی ظاہر کرچکی، صرف تاریخ کا جھگڑا تھا، جس کیلئے اسے پرانی تاریخوں میں کیلیبری فونٹ میں جعلی ٹرسٹ ڈیل بنانا پڑی۔ نتیجے کے طور پر اسے جعل سازی اور کرپشن کے جرم میں سزا ہوگئی۔
یاد رہے کہ الزام عائد ہونے کے بعد جے آئی ٹی نے ثبوت اکٹھے کرکے نوازشریف اور اس کے اہل خانہ پر چارج شیٹ عائد کی تھی۔ اب بارثبوت نوازشریف پر تھا کہ وہ بتاتا کہ اس نے لندن فلیٹس کیسے خریدے؟
ڈھائی سال ہونے کو آئے، اب تک نوازشریف یہ نہیں بتا سکا کہ دبئی، جدہ اور لندن میں فیکٹریاں اور جائیدادیں بنانے کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟ کس چینل سے ٹرانسفر ہوا؟ کسی ایک ٹرانزیکشن کی کوئی ایک رسید بھی پیش نہ کرسکا ۔ ۔ ۔ نیب کا آرڈیننس جامع ہے، اس کے مطابق نوازشریف کو سزا ہوئی، اطہر من اللہ صرف آبزرویشنز جاری کرکے فضا بنانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ لفافہ صحافیوں کو پراپیگنڈہ کیلئے ریفرینس مل سکے۔
اب آجائیں اپیل کے متوقع فیصلے پر۔
میری اپنی اطلاعات کے مطابق اطہر من اللہ کی نوازشریف کے ساتھ سیٹنگ ہوچکی، لیکن دوسرا جج میاں گل حسن اورنگزیب ابھی تک قابو نہیں آسکا۔ اب زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ دو رکنی ججوں پر مشتمل یہ پینل سپلٹ فیصلہ جاری کردے، یعنی اطہر من اللہ نوازشریف کی سزا منسوخ کردے لیکن گل حسن اورنگزیب یہ سزا برقرار رکھے۔
اس صورت میں معاملہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے پاس جائے گا جو کہ ایک تیسرا جج تعینات کرکے فیصلہ لے گا۔ نوازشریف کا مستقبل اس تیسرے جج کی تعیناتی کے ساتھ جڑا ہے۔ پرانے پلان کے مطابق یہ تیسرا جج شوکت صدیقی ہونا تھا، لیکن شوکت صدیقی کو اس کی اپنی کرپشن اور بیوقوفی لے ڈوبی، اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آئی ایس آئی پر بغیر کسی ثبوت کے سنگین الزامات عائد کردیئے تھے چنانچہ اب وہ خود کاروائی کی زد میں ہے ۔ ۔ ۔
نوازشریف،
تم اس وقت نیب یا عدالت کی نہیں بلکہ قدرت کی پکڑ میں ہو، جتنے مرضی ہاتھ پاؤں چلا لو، تم اس سے نکل نہیں سکتے۔ ۔ ۔ اب جیل سے تمہاری میت ہی باہر آئے گی!!!
نوازشریف کی اپیل کی سماعت کے دوران اطہرمن اللہ کی اب تک جاری کی گئی آبزرویشنز کو سن کر لگتا ہے کہ موصوف نہ تو آئین سے واقف ہیں اور نہ ہی نیب آرڈیننس سے۔ کیونکہ اگر آرڈیننس پڑھا ہوتا تو کبھی مریم نواز کے غیرمتعلقہ ہونے کی آبزرویشن نہ دیتا۔ نیب کے جس آرٹیکل کے تحت نوازشریف فیملی کو سزا ہوئی، اس میں واضح لکھا ہے کہ اس کا اطلاق حکومتی عہدیدار اور اس کے رشتے دار، دونوں پر ہوتا ہے۔ مریم نواز کا نام پانامہ میں آچکا، برٹش ورجن آئی لینڈ کی حکومت نے سرکاری طور پر تصدیق کردی کہ وہ نیلسن اور نیسکول نامی آفشور کمپنیوں کی مالک ہے، مریم نواز خود اپنے آپ کو ان کمپنیوں کی ٹرسٹی ظاہر کرچکی، صرف تاریخ کا جھگڑا تھا، جس کیلئے اسے پرانی تاریخوں میں کیلیبری فونٹ میں جعلی ٹرسٹ ڈیل بنانا پڑی۔ نتیجے کے طور پر اسے جعل سازی اور کرپشن کے جرم میں سزا ہوگئی۔
یاد رہے کہ الزام عائد ہونے کے بعد جے آئی ٹی نے ثبوت اکٹھے کرکے نوازشریف اور اس کے اہل خانہ پر چارج شیٹ عائد کی تھی۔ اب بارثبوت نوازشریف پر تھا کہ وہ بتاتا کہ اس نے لندن فلیٹس کیسے خریدے؟
ڈھائی سال ہونے کو آئے، اب تک نوازشریف یہ نہیں بتا سکا کہ دبئی، جدہ اور لندن میں فیکٹریاں اور جائیدادیں بنانے کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟ کس چینل سے ٹرانسفر ہوا؟ کسی ایک ٹرانزیکشن کی کوئی ایک رسید بھی پیش نہ کرسکا ۔ ۔ ۔ نیب کا آرڈیننس جامع ہے، اس کے مطابق نوازشریف کو سزا ہوئی، اطہر من اللہ صرف آبزرویشنز جاری کرکے فضا بنانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ لفافہ صحافیوں کو پراپیگنڈہ کیلئے ریفرینس مل سکے۔
اب آجائیں اپیل کے متوقع فیصلے پر۔
میری اپنی اطلاعات کے مطابق اطہر من اللہ کی نوازشریف کے ساتھ سیٹنگ ہوچکی، لیکن دوسرا جج میاں گل حسن اورنگزیب ابھی تک قابو نہیں آسکا۔ اب زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ دو رکنی ججوں پر مشتمل یہ پینل سپلٹ فیصلہ جاری کردے، یعنی اطہر من اللہ نوازشریف کی سزا منسوخ کردے لیکن گل حسن اورنگزیب یہ سزا برقرار رکھے۔
اس صورت میں معاملہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے پاس جائے گا جو کہ ایک تیسرا جج تعینات کرکے فیصلہ لے گا۔ نوازشریف کا مستقبل اس تیسرے جج کی تعیناتی کے ساتھ جڑا ہے۔ پرانے پلان کے مطابق یہ تیسرا جج شوکت صدیقی ہونا تھا، لیکن شوکت صدیقی کو اس کی اپنی کرپشن اور بیوقوفی لے ڈوبی، اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آئی ایس آئی پر بغیر کسی ثبوت کے سنگین الزامات عائد کردیئے تھے چنانچہ اب وہ خود کاروائی کی زد میں ہے ۔ ۔ ۔
نوازشریف،
تم اس وقت نیب یا عدالت کی نہیں بلکہ قدرت کی پکڑ میں ہو، جتنے مرضی ہاتھ پاؤں چلا لو، تم اس سے نکل نہیں سکتے۔ ۔ ۔ اب جیل سے تمہاری میت ہی باہر آئے گی!!!
ایک آٹھ دس سال کی معصوم سی غریب لڑکی بک اسٹور پر چڑھتی ہے اور ایک پینسل اور ایک دس روپے والی کاپی خریدتی ہے اور پھر وہیں کھڑی ہو کر کہتی ہے انکل ایک کام کہوں کروگے؟
جی بیٹا بولو کیا کام ہے؟
انکل وہ کلر پینسل کا پیکٹ کتنے کا ہے، مجھے چاہیے، ڈرائنگ ٹیچر بہت مارتی ہے مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں نہ ہی امی ابو کے پاس ہیں، میں آہستہ آہستہ کرکے پیسے دے دوں گی.
شاپ کیپر کی آنکھیں نم ہیں، بولتا ہے بیٹا کوئی بات نہیں یہ کلر پینسل کا پیکٹ لے جاؤ لیکن آئندہ کسی بھی دکاندار سے اس طرح کوئی چیز مت مانگنا، لوگ بہت برے ہیں، کسی پر بھروسہ مت کیا کرو.
جی انکل بہت بہت شکریہ میں آپ کے پیسے جلد دے دوں گی اور بچی چلی جاتی ہے.
ادھر شاپ کیپر یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے اگر ایسی بچیاں کسی وحشی دکاندار کے ہتھے چڑھ گئیں تو زینب کا سا حال ہی ہوگا.
ٹیچرز سے گذارش ہے خدارا اگر بچے کوئی کاپی پینسل کلر پینسل وغیرہ نہیں لا پاتے تو جاننے کی کوشش کیجئے کہ کہیں اس کی غربت اس کے آڑے تو نہیں آ رہی، اور ہو سکے تو ایسے معصوم بچوں کی تعلیم کے اخراجات آپ ٹیچر حضرات مل کر اٹھا لیا کریں، یقین جانیں ہزاروں لاکھوں کی تنخواہ میں سے چند سو روپے کسی کی زندگی نہ صرف بچا سکتے ہیں بلکہ سنوار بھی سکتے ہیں.
10 محرم الحرام کے بعد یزیدیوں کی قید میں جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا قافلہ لے کر دمشق پہنچیں تو بازاروں اور گھروں کی چھتوں پر لوگ جمع ہوگئے کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہ کٹے ہوئے سر کن کے ہیں اور یہ جو قیدی آرہے ہیں کون ہیں؟ صرف اتنا اعلان کیا ہوا تھا کہ حکومت کے کچھ باغیوں کو قتل کردیا گیا ہے اور ان کے سر یزید کے دربار میں پہنچائے جارہے ہیں۔ لوگ باغیوں کو دیکھنے کے لئے چھتوں پر چڑھ رہے تھے۔ بازار دمشق میں ہجوم ہوگیا۔ قافلہ رک گیا۔ (آج وہ بازار حمیدیہ کہلاتا ہے) بھوک، پیاس اور پریشان حالی تھی۔ چھت سے ایک خاتون نے دیکھا کہ قیدی ہیں پریشان حال ہیں تو اس نے پانی، کچھ کھانے کی چیزیں، کچھ کپڑے، دوپٹے اور ضرورت کا سامان بھیجا۔ نواسی رسول سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے سارا کچھ دیکھ کر اس خاتون کو بلوایا۔ جب وہ قریب آئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بی بی تو نے ہمارے ساتھ بڑی نیکی کی ہے۔ کوفہ سے لے کر دمشق تک کسی نے ہمیں پوچھا تک نہیں۔ کسی نے ہمارے حال کی خبر نہیں لی۔ تم کون ہو؟ اور ہمیں کیا سمجھ کر ہم سے اتنی بھلائی کی‘‘۔ اس نے کہا : ’’میں آپ کچھ نہیں جانتی دراصل میں اپنی اوائل عمر میں مدینہ رہتی تھی اور حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی خادمہ تھی۔ جب انکا وصال ہوگیا تو مدینہ چھوڑ کر دمشق آگئی‘‘۔ آپ سلام اللہ علیہا نے فرمایا : ’’اگر تم نے اتنی نیکی کی ہے تو تمہیں کیا معلوم ہے ہم کون ہیں‘‘؟ اس نے جواب دیا : ’’مجھے اور تو کچھ معلوم نہیں لیکن جب سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے وصال کا آخری وقت تھا تو میں نے عرض کیا : بی بی مجھے کچھ وصیت کردیں اس وصیت پر عمر بھر عمل کروں گی۔ وہ مجھے جانتی تھیں کہ میں دمشق سے ہوں۔ انہوں نے مجھے وصیت کی کہ بیٹا ایک ہی وصیت ہے کبھی قیدی نظر آئیں توان سے اچھا سلوک کرنا۔ میں نے سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی وصیت پر عمل کیا ہے‘‘۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا آنکھوں میں آنسو لئے فرمانے لگیں۔ ’’اللہ تیرا بھلا کرے۔ بتا تو نے ہم سے اتنی نیکی کی ہم تیرے لئے کیا دعا کریں۔ ہم تو اس وقت خود مہاجر ہیں۔ قیدی، مظلوم، بے یارومددگار ہیں ہم تیرے لئے کیا دعا کرسکتے ہیں‘‘۔ اس نے کہا : ’’بی بی میری ایک ہی آرزو ہے‘‘ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے پوچھا : ’’کیا آرزو ہے‘‘؟ اس نے کہا : جب میں وہاں سے چلی تھی اس وقت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے چھوٹے چھوٹے شہزادے تھے۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اور بی بی زینب رضی اللہ عنہا۔ اب زمانہ گزر گیا۔ میری اس وقت سے آرزو ہے کہ مجھے حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور زینب رضی اللہ عنہا کی زیارت ہوجائے۔ آپ رضی اللہ عنہا دعا کردیں کہ مجھے ان کی زیارت ہوجائے۔ بی بی زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’تیری دعا قبول ہوگئی ہے۔ میں زینب (سلام اللہ علیہا ) ہوں، قیدی ہوں اور یہ جو سر کٹا ہوا نیزے پر دیکھ رہی ہو یہ سیدہ کائنات فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بیٹے حسین (علیہ السلام ) ہیں